جمعه,  27 دسمبر 2024ء
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کئی ماہ سے جاری جنگ کے اثرات

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کئی ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے اگرچہ ایک طرف پوری دنیا تباہی و بربادی کے خوف میں مبتلا ہے۔ تو دوسری طرف تمام ممالک نئی صف بندیوں میں بھی مصروف ہے۔ جو ممالک کل تک واحد سپر پاور امریکہ کی تابعداری اور احکامات کی بجاآوری میں کسی قسم کی کوتاہی کے روادار نہ تھے۔ وہ آج حیلوں بہانوں سے اپنی بقا و سلامتی کو بر قرار رکھنے کیلئے نئی سوچ و فکر کے ساتھ کسی اور معاشی و دفاعی طور پر مستحکم ملک کی طرف دیکھ رھے ھیں۔ جو ظاہر ہے۔ روس اور چین ہی ان کا انتخاب ہو سکتا ہے۔

افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد اگرچہ روس معاشی و دفاعی لحاظ سے اتنا کمزور ھو چکا تھا۔ کہ اپنے ریاستوں کی اکائی کو برقرار نہ رکھ سکا۔ جسکی وجہ سے امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بنا اور من مانے نئے ورلڈ آرڈر کا اجرا کیا۔ جھاں اسکا جی چاہا وہاں پر اپنی بربریت کی دھاک بٹھانے کیلئے نہتے لوگوں کا قتل عام کرتا رھا۔ جو امریکہ کی مخالفت کرتے تھے۔ اسی زعم میں اس نے افریقہ سے لیکر ایشیا تک کسی بھی ملک پر قبضہ کرنا اپنا حق منصبی سمجھا تھا۔

امریکہ کی نظریں افغانستان پر برابر جمی رہی۔ جھاں معدنیات کے وافر ذخائر موجود ھیں۔ جس پر قبضہ کرنے کیلئے امریکہ نے ایک خود ساختہ نائن الیون کا ڈرامہ رچایا۔ جس کی تمامتر زمہ داری افغانستان میں نھتے طالبان حکومت پر ڈالی گئی۔ اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے ساتھ یورپی ممالک کو معدنیات کے ذخائر میں حصہ دار بنانے کی شرط پر ملا لیا۔ لہذا نھتے اور دفاعی لحاظ سے انتہائی کمزور ترین ملک افغانستان پر بد مست ہاتھی کی طرح چڑھائی کردی۔ لیکن افغان عوام کے اسلامی اور قومی جذبہ کا اس نے غلط اندازہ لگایا تھا۔

اس کا پلان افغانستان پر چند مھینے کے اندر قبضہ کرنا تھا۔ پھر آگے بڑھ کر پہلے ایران اور پھر پاکستان کو بھی سبق سکھانا تھا۔ جو واحد اسلامی ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ جس کو مغربی ممالک بشمول اسرائیل اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ دس گیارہ سالہ جنگ کے بعد امریکہ کو اپنی غلطی کا احساس کے ساتھ معاشی و فوجی نقصانات کا ایسا سامنا کرنا پڑا کہ اسکی سپر پاور کی ساری خبط امریکیوں کے ذھنوں سے نکل گئی۔ اور اپنی معاشی کمزوریوں کو دنیا سے چھپانے کی ھر ممکن کوشش کی۔ لیکن جن ممالک سے امریکہ نے طاقت کی زبان میں باتیں کی تھیں۔ وہ اسی موقع کے طاق میں تھے۔ جن میں روس، چین اور ایران سب شامل تھے۔ لیکن خاموشی سے اپنی منصوبہ بندیوں میں مصروف رہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی شکست کی خفت کا خاتمہ کر نے کیلئے چین کے خلاف تائیوان میں محاذ کھولنے کی ناکام کوشش کی ۔ جسکے بدلے روس نے یوکرین پر حملہ کرکے امریکی اور یورپی منصوبے پر پانی پھیر دیا۔

جب سے فلسطین کے مسلمانوں نے اپنی آزادی کیلئے اسرائیل جیسے دفاعی لحاظ سے مضبوط ملک کے ساتھ جنگ چھیڑی ھے۔ دنیا کو ایک نئی فکر اور سوچ میں مبتلاء کر رکھا ہے۔ کہ اسرائیل کی مضبوط آرمی جس کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھی تھی۔ آج معاشی و دفاعی طور پر طاقتور اسرائیل امریکہ برطانیہ آسٹریلیا کینیڈا اور دوسرے یورپی ملکوں سے اسلحہ اور امداد کیلئے دھائی دے رھا ہے۔ جس کو صرف امریکہ اور چند ایک ممالک کی مدد حاصل ہے جبکہ دوسرے تمام اسرائیلی اتحادیوں نے منہ پھیر رکھا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ دنیا نئی صف بندیوں میں مصروف ہے۔ جسکے لئے تین پلیٹ فارم بنائے جا چکے ہیں۔ ایک بڑا پلیٹ فارم روس اور چین کی سرپرستی میں جس میں تمام مسلم ملکوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایک پلیٹ فارم مڈل ایسٹ کے ملکوں کیلئے ترکی میں سجایا گیا ہے۔ جس میں آج کل اکثر مڈل ایسٹ کے ملکوں کے سربراہان اپنی تمام رنجشوں کو بالائے طاق رکھکر سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ ایک پلیٹ فارم پاکستان میں بنایا گیا ہے۔ جس میں سعودی عرب ، ایران اور چین کے درمیان نئے معاہدوں کی پیش بندی اور پرانے معاہدوں کی تجدید ھو رہی ہے۔ حالانکہ ایران پر امریکہ نے کھڑی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ جس کی وجہ ایران کی اسرائیل کے خلاف مزاحمتی فلسطینی گروہوں کی حمایت اور ان کو اسلحہ کی فراہمی ہے۔ اور ایران کی اس جنگ میں شمولیت بھی ہے۔ یھاں یہ ذکر قابل غور ہے کہ جب بھی امریکہ نے کسی بھی ملک پر پابندیاں لگائی ہیں۔ پاکستان نے امریکی پابندیوں پر عمل کرکے اس متاثرہ ملک سے روابط ختم کئے رکھے۔ لیکن یہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ھے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی صدر کو پاکستان میں مثالی پروٹوکول دیا جا رھا ہے جو پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ امریکہ اور اسکے حواریوں کیلئے پاکستان سے ایک نیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کہ وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نھیں رہتے۔ آج پاکستانی قائدین اس بات کو سمجھ رہے ہیں۔ ک دوستی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی قومی اور ملکی مفادات و ترجیحات کو بالائے طاق رکھنا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔ قائدین کی اس دور اندیشی کا ھم من حیث القوم خیر مقدم کرتے ہیں۔ جنھوں نے وقتی مصلحتوں کی پرواہ نھیں کی۔ جیسے ماضی میں پاکستانی قوم کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم بحثیت مجموعی پاکستانی قائدین کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ھیں کہ قومی مفادات کے حصول کیلئے وہ ہر ایک قدم اٹھانے سے گریز نھیں کرینگے اور پاکستانی قوم اس ضمن میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح انکے پشت پر کھڑی رہیگی۔ جس سے قومی سطح پر پاکستان کو معاشی، تجارتی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط اور کساد بازاری سے نکلنے کے مواقع میسر ہونگے۔ اور ساتھ ساتھ پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارتی، دفاعی میدان میں خود کفالت اور سیکورٹی جیسے معاملات میں اتحاد کی نئی راہیں کھلنے کی امیدیں وابستہ ہونگی۔ اور پاکستان و اسلام دشمنوں کے عزائم خاک میں مل جائینگی ۔

مزید پڑھیں: آج کا موازنہ 1971 کے حالات و واقعات سے؟

مزید خبریں