بدھ,  27 نومبر 2024ء
بطوروزیراعظم سیاسی مقاصد کے لیے کبھی انٹیلیجنس اداروں کو استعمال نہیں کیا ،شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ میں فیض آباددھرنے والے معاملے میں ذاتی طور پر شامل نہیں ہوا تھا، اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ پیر تک دھرنا ختم کرنا ہے،پنجاب پولیس دھرنے ختم کرانے کیلئے طے شدہ دن وہاں نہ پہنچی، پتہ چلا کہ پنجاب پولیس دبا ئومیں تھی اس لئے دھرنے ختم کرانے کیلئے وہاں نہیں آئی۔

نجی ٹی وی سے بات چیت میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق معاہدے میں کوئی غلطی نہیں تھی،خدشہ تھا معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اس لئے اس دھرنے کو ختم کرنے کیلئے فیصلہ کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ اس وقت کی صورتحال کے مطابق صحیح تھا، مجھے عدالت میں بلایا گیا ،میں عدالت میں پیش ہوااور جواب دیا، میں چاہتا ہوں فیض آباد دھرنا انکوائری رپورٹ کو شائع کردینا چاہئے، فیض آباد دھرنا کاانکوائری کمیشن سپریم کورٹ نے بنایا تھا،ٹی او آرز بھی انہوں نے سیٹ کئے تھے، مجھ سے24سوالات پوچھے گئے تھے۔

سابق وزیراعظم نے کہاکہ اگر اس معاملے میں کرائم ہوا ہے تو پراسیکیوشن ہونی چاہئے، اس معاملے کاحتمی نتیجہ نکلنا چاہئے، جرم ہوا ہے تو سزا دی جائے ورنہ کلیئر کیاجائے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب میں وزیراعظم تھا ،تب تمام سکیورٹی ادارے مجھے رپورٹ کرتے تھے اور جو رپورٹ ہم چاہتے ہوں وہ ہمیں مل جاتی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ میرا 10 مہینے کا عرصہ تھا ،ایک محدود میںمینڈیٹ تھا، میں صرف اسی حساب سے نظام حکومت چلا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میرا کام صرف یہ تھا کہ میری پارٹی کی حکومت ٹوٹ گئی ہے جو کام وہ کر رہی تھی میں بطور وزیراعظم اس کو جاری رکھوں، ملک کی ترقی کو بحال رکھوں، جو پروجیکٹس وغیرہ چل رہے تھے ،ان کو مکمل کریں اور جو معاملات حل طلب تھے ان کو حل کریں۔

انہوں نے کہا کہ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں سارا دن انٹیلیجنس اداروں سے رپورٹ لیتا رہوں، انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے وزیراعظم کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس مل جاتی ہیں اور یہ انٹیلیجنس رپورٹس اخباری خبروں سے زیادہ نہیں ہوتیں،اس حوالے سے اس وقت چار، پانچ وزرائے اعظم زندہ ہیں کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جب کبھی ضرورت ہوتی تھی تو ہم انٹیلیجنس اداروں سے رابطہ کر کے رپورٹس لے لیتے تھے ۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرے دور حکومت میں ایم آئی کے ڈائریکٹرعاصم منیرتھے میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا، ہاں جب کبھی میٹنگز میں وہ شریک ہوتے تھے تب بات چیت ہوتی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی انٹیلیجنس اداروں کے سربراہوں سے خود رابطہ نہیں کیا ،نہ مجھے کوئی ضرورت پیش آئی ہاں البتہ قومی نوعیت کے معاملات یا جہاں ضرورت پڑی ،تب ،تب میں نے کسی بھی ادارے کے سربراہ سے رابطے کیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاسی مقاصد کے لیے کبھی انٹیلیجنس اداروں کو استعمال نہیں کیا ،انہوں نے کہا کہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے دور حکومت میں ملکی سطح پر جب کبھی اہم اجلاس ہوتے تھے ،تو آئی بی کو اس لیے نہیں بلاتا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ،جہاں جس ادارے کی ضرورت ہوتی تھی میں میٹنگ کال کرتا تھا اور اس میٹنگ میں اس ادارے کے سربراہان کو اور دیگر عہدے داران کو بلایا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میری حکومت کا یہ فوکس نہیں تھا کہ ہم سارا دن دھرنے کے بارے میں سوچتے رہیں، میں نے اس دھرنے کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کام ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں دھرنے دئیے جاتے رہتے ہیں ،لیکن ملک تو چل رہا تھا ،تھوڑی بہت تکلیف تھی، لوگوں کو لیکن ملک تو چل رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ میں کیا کر سکتا تھا؟ نہتے لوگوں پر گولی چلا دیتا ؟یا ان پر تشدد کرواتا؟

انہوں نے کہاکہ دھرنے والوں سے نمٹنے کا کام احسن اقبال کو سونپا گیا تھا، ان کی زیر صدارت کمیٹی قائم کی گئی ،دھرنے کے تمام معاملات وہی دیکھ رہی تھی۔

مزید خبریں