هفته,  23 نومبر 2024ء
پاکستان میں مرغی کے گوشت کی قیمت کو پر لگنے کی وجہ چوزوں کی افغانستان برآمد ہے یا مہنگی فیڈ؟

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)پاکستان میں مرغی کا گوشت خوراک کا ایک اہم جزو ہے تاہم ماہ رمضان میں بڑھنے والی قیمتیں اب تک کم نہیں ہو سکیں جس کی وجوہات میں سے ایک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ملک سے بڑی تعداد میں چوزے افغنستان برآمد کیے جا رہے ہیں۔

آج صبح جب 1240 روپے میں مرغی کا گوشت ملا تو اتنے شاک (صدمے) میں آ گئی تھی کہ مجھ سے کچھ دیر تک بات بھی نہیں کی گئی۔ شکر ہے میرے پرس میں کچھ اضافی پیسے تھے جو دکاندار کو ادا کیے اور مزید کچھ اور سودا لیے واپس گھر آ گئی۔‘

شگفتہ اسلام آباد کے نواحی علاقے شہزاد ٹاون میں رہتی ہیں اور اپنے گھر کے سودے سلف کی خریداری بھی اکثر خود کرتی ہیں۔ صحت کے مسائل کے پیش نظر وہ مرغی کا گوشت پکاتی ہیں تاہم فارمی مرغی کے بڑھتے ریٹ نے ان کو پریشان کر دیا ہے۔

’میں ڈیڑھ کلو وزن تک کی زندہ مرغی کا گوشت لینے مارکیٹ گئی تھی مگر دیکھا کہ زیادہ تر پنجرے خالی پڑے ہیں۔ ایک دکان سے مرغی ملی تو وہاں موجود کوئی مرغی سوا دو کلو سے کم وزن کی نہیں۔ مجبوراً وہی لی۔‘

’پیسے سن کر میں ہکا بکا رہ گئی، مرغی کے لیے ہاتھ میں پکڑا ہزار روپے کا نوٹ کم پڑ گیا، مزید سودا لینے کا ارادہ ملتوی کر کے میں چپ چاپ گھر واپس آ گئی۔‘

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زندہ مرغی کے بدھ کے روز کے نرخ 550 روپے جبکہ اس کے گوشت کی قیمت 890 روپے فی کلو ہے۔

مرغی کی قیمت میں رمضان کے تیسرے عشرے سے اب تک لگ بھگ 130 روپے فی کلوسے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یاد رہے اسلام آباد میں آج سے تین ہفتے قبل زندہ چکن 420 روپے فی کلو میں فروحت ہو رہی تھی۔

شگفتہ کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ عرصے پہلے تک 1500 کی دو مرغیاں وہ لے آئی تھیں مگر اس وقت زیادہ تر بڑی مرغیاں مارکیٹ میں ہیں اور قیمت میں اضافےاس قدر کے بعد ’بڑی چکن لینے کے لیے جیب کو بھاری اور حوصلہ کو بلند‘ کرنا ہو گا

مرغی کے نرخوں سے پریشان یہ صرف شگفتہ کی کہانی نہیں بلکہ ملک کے اکثر شہروں میں گزشتہ چند دنوں سے فی کلوزندہ مرغی کی قیمت میں 100 روپے سے 130 روپے تکاضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس نے بکرے اور گائے کے گوشت کو خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والے متوسط طبقے کواپنا مینو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اگر بدھ کے روز کے نرخوں کی بات کریں توکراچی کی مارکیٹ میں ایک کلو کے وزن کی زندہ مرغی کی قیمت 580 روپے اور اس کا فی کلو گوشت 840 روپے میں فروخت ہوا۔

پشاور میں ایک کلو وزن کی زندہ مرغی 530 روپے فی کلو، جبکہ لاہور میں گزشتہ روز اس کی قیمت 540 روپے تھی تاہم انتظامیہ کے عائد کردہ نرخوں سے اختلاف کرتے ہوئے بدھ کے روز لاہور میں پولٹری ایسو سی ایشن نے ہڑتال کر دی۔

مرغی کی قیمت کو پر لگ جانے سے دسترخوان متاثر

اس سے پہلے کہ مرغی کے پہنچ سے دور ہونے کی وجوہات ہر بات کریں، پہلے رخ کرتے ہیں کراچی کا جہاں کی رہائشی ذاہدہ بھی انھی افراد میں شمار ہوتی ہیں جن کے دسترخوان پر مرغی کا گوشت نسبتا کم قیمت ہونے کے باعث ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اب وہ 10 یا 20 روپےہیں بلکہ سینکڑے کے ہندسے کو پار کرنے والے اس اضافے سے شدید پریشان ہیں۔

متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی زاہدہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ زاہدہ کھانے پکانے کے دورانگھر اپنے پوتے کی پسند کا خاص خیال رکھتی ہیں تاہم مرغی مہنگی ہونے سے ان کا مینو متاثر ہو رہا ہے۔

’دو ہفتے پہلے تقریبا 600 روپے فی کلو تک ملنے والا مرغی کا گوشت آج 840 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ چھوٹے بچے دیادہ تر نگٹس یا کباب شوق سے کھا لیتے ہیں تو اب اس ہوش ربا اضافے میں بچوں کو ان کی پسند کا کیسے بنا کے دیں۔ بچے تو ضد کرتے ہیں ان کو کیسے سمجھائیں کہ اپنی پسند بدلیں۔‘

’جب مرغی 800 روپے کلو لیں گے تو اس میں انجر پنجر سب شامل ہوتے ہیں۔ اس میں سے بمشکل تین پاؤ گوشت نکلے گا اور بھرے پرے گھر میں سب کے حصے میں ایک ایک بوٹی ہی آئے گی۔ اور اگرچھوٹے بچوں کی حسب پسند بون لیس (ہڈی کے بغیر) کریں تو 800 میں کیا ہاتھ آئے گا؟ اس کو بیان کرنا مشکل ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مہنگائی اتنی ہے کہ دعوتوں میں بھی بکرے کے بجائے چکن کی ڈشز بنائی جاتی ہیں لیکن یہی حال رہا تو سبزی دال سے بات آگے بڑھانا مشکل ہے۔‘

زاہدہ کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ’ابھی تو پیٹرول کی قیمت بڑھ گئی تو ایسے میں کیا ہی مرغی کی قیمت نیچے آسکے گی۔‘

گاہک کی قوت خرید کم ہے اور دام نہ بڑھائیں تو خود ہمیں نقصان ہے

مرغی کے نرخوں کا جب ہم نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کے تیسرے عشرے اور آج کے نرخوں میں 100 روپے سے زیادہ کا فرق موجود ہے۔

کراچی میں بدھ کے روز مارکیٹ میں ایک کلو کے وزن کی زندہ مرغی کی قیمت 580 روپے اور اس کا فی کلو گوشت 840 روپے میں فروخت ہوا۔

کراچی کے شہری اسد کے مطابق انھوں نے رمضان کے وسط میں مرغی کا گوشت 560 روپے اور چاند رات کو 770 روپے فی کلو کے حساب سے خریدا تھا۔

دوسرح جانب بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں اس حوالے سے صورتحال ہمیں تھوڑی مختلف دکھائی دی ہے۔ کوئٹہ میں سجی کا کاروبار کرنے والے رہاشی حفیظ لہڑی نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آج مرغی کے گوشت کا ریٹ 720 روپے فی کلو رہا جبکہ عید کے دنوں میں اس کی قیمت 850 روپے تک تھی۔

’مرغی کے ریٹ بڑھنے سے کاروبار پر بھی فرق تو پڑتا ہے۔ ہم سجی کی قیمت بڑھائیں تو گاہک کی قوت خرید کم ہے اور دام نہ بڑھائیں تو خود ہمیں نقصان ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔‘

ایک دن کا چوزہ 60 روپے سے 220 روپے کا کیوں ہوا؟

ضلعی انتظامیہ کے ساتھ قیمتوں میں اختلاف پر لاہور سمیت پنجاب کے تقریبا تمام شہروں میں پولٹری ایسوسی ایشن پنجاب کی کال پر بدھ کے روز ہڑتال کی گئی۔

آخرمرغی کی قیمت میں اتنے اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پولٹری ایسوسی ایشن لاہور کے صدر طارق جاوید نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان سے افغانستان چوزے برآمد کرنا اور دوسری وجہ فیڈ مہنگی ہونا ہے۔

’پاکستان میں ویسے بھی اس وقت ایک دن کا چوزہ کم ہے اور 20 سے 22 فیصد چوزے افغانستان ایکسپورٹ کیے جا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 60 روپے میں فروحت ہونے والا ایک دن کا چوزہ آج 220 روپے میں مل رہا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر یہ ایکسپورٹ رک جائے تو چوزے کی قیمت 100 روپے تک ہو جائے گی اوراس کا اثر مرغی کی قیمت پر پڑے گا۔

’مرغی کی فیڈ پر نہ صرف مخلف ٹیکس ہیں بلکہ سویابین کی ایل سی بھی نہیں کھولی جا رہی تو یہ خوراک مہنگی ہے۔ وہ سستی ہو گی جب ہی مرغی کی قیمت کم ہو گی۔ ‘

انھوں نے کہا کہ بجائے اس کے کہ مرغی کے گوشت کو مہنگا ہونے کے اسباب کو حل کرتے، انتظامیہ نے دکانداروں کو نشانہ بنایا اور سرکاری لسٹبھی زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے 100 روپے کم کر کے آویزاں کر دیا۔

’480 روپے میں خرید کر گاہک کو 400 میں فروخت کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ہڑتال کی تاہم ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے۔‘

دوسری جانب راولپنڈی کی پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر ظہیر عباسی کہتے ہیں کہ اس وقت مرغی کی افزائش کے 20 سے 25 فیصد فارمز بند پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بحران آیا ہے۔

’اس وقت گرینڈ پیریٹ چکن ہمارے پاس تقریبا 90 ہزار کے قریب ہیں ہیں جبکہ ان کی ضرورت دو لاکھ سے زائد ہے۔‘

گرینڈ پیریٹ وہ مرغے اور مرغیاں کہلاتے ہیں جن کے انڈوں سے ایک دن کا چوزے نکالے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت ٹیکس کم کرے گی، فیڈ کی قیمت میں کمی ہو گی تب ہی اگلے سال طلب و رسد کا فرق بھی کم ہو گا ورنہ قوت بخش سمجھے جانے والے اس سستے گوشت کی قیمت مزید بڑھتی رہے گی۔‘

چوزے افغانستان برآمد کیے جا رہے ہیں

آخر آئے روز مرغی کی قیمتیں بڑھنے کی روک تھام کیوں نہیں ہو پاتی اور حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرنے جا رہی ہے؟

اس حوالے سے رابطہ کرنے پرصوبائی وزیر پنجاب صنعت و تجارت شافع حسین نے بتایا کہ وزارت لائیو سٹاک اور وزارت خوراک نے مرغی کی قیمتوں کے حوالے سے پنجاب پولٹری ایسوسی ایشن کے ساتھ مزاکرات کیے ہیں اور ان کے تحفظات پر بات چیت کی ہے۔ ’کوشش ہے کہ آنے والے دنوں میں مرغی کی قیمت میں کمی لائی جا سکے۔‘

شافع حسین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ایک تو چوزے افغانستان برآمد کیے جا رہے ہیں اور دوسرا فارمی مرغیوں کی فیڈ کے اجزا پر پابندی ہے۔ کوشش ہے کہ ناصرف قیمتوں میں کمی لائی جا سکے بلکہ وہ اقدامات کیے جائیں جن سے اس کا طویل المدتی حل نکالا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے مستقل حل کے لیے سویا بین (جو کہ مرغیوں کی فیڈ کا لازمی جزو ہے) کو ملک میں اگایا جائے۔ فیڈ سستی ہو گی تو مستقل حل نکالا جا سکے گا۔‘

صوبائی وزیر صنعت و تجارت کا کہنا تھا کہ اس وقت سویا بین انڈیا اورارجنٹینا سے درآمد کیا جا رہا ہے۔

ا ن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کوشش ہے کہ چوزوں کو افغانستان برآمد کرنے پر پابندی لگ سکے تاکہ طلب و رسد میں توازن لایا جا سکے۔

 

مزید خبریں