بھارت (روشن پاکستان نیوز)بھارت میں عام انتخابات میں واضح شکست دیکھ کر مودی سرکار کے ہوش اڑ گئے، پہلے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کارروائیاں، اب اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مودی سرکار انتخابات سے قبل مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کے لیے ایک اور چالاک حربہ استعمال کر رہی ہے جب کہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی معمول بن چکی ہے۔
بھارت میں انتخابات سے قبل مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حقوق سے محروم کرنا مودی سرکار کا الیکشن جیتنے کا مذموم حربہ ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش میں انتخابات سے قبل مدارس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہ ایک ایسا اقدام ہے جو عام انتخابات سے قبل مسلمانوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت سے مزید دور کر سکتا ہے۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے 2004 کے مدارس ایکٹ کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست کے تمام مدارس پر پابندی عائد کر دی۔
مدرسہ قانون سے بھارت کے سیکولرازم کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔بھارتی ریاست اتر پردیش میں 24 ملین آبادی میں سے پانچواں حصہ مسلمان ہونے کے باوجود ان کی مذہبی آزادی چھیننا سراسر ظلم ہے۔
اتر پردیش کے مدرسہ تعلیمی بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید کہتے ہیں۔بھارتی قانون کے اس اعلیٰ اقدام سے 25 ہزار مدارس کے 27 لاکھ طلباء اور 10 ہزار سے زائد اساتذہ متاثر ہوں گے۔
اس سال جنوری میں، بھارتی حکومت نے اتر پردیش کے مدارس میں ریاضی اور سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کو ادائیگیاں روکنے والی اسکیم کو ختم کر دیا، جس سے 21,000 اساتذہ متاثر ہوئے۔
ہندوتوا کو فروغ دینے والی بی جے پی حکومت شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی سینکڑوں مدارس کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کر رہی ہے۔بھارتی عدالت نے مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو معیاری تعلیم نہ دینے کا بہانہ بنا کر کرم داروں کو بند کر دیا۔
بھارتی قوانین صرف مسلمانوں اور ان کے مذہبی مدارس کو نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، بھارت میں مدارس پر پابندی لگا کر مودی کی ہندوتوا ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مدارس کی بندش نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر خاموشی توڑ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔