هفته,  23 نومبر 2024ء
پاک ایران تنازعہ کیا رنگ لائے گا؟

خلاصہ کلام

داؤد درانی

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایران کی طرف سے فضائی حملے اور اس کے بعد جوابی کاروائی کے طور پر پاکستان کی طرف سے فوری طور پر ایران کے صوبے سیستان میں کاروائی نے دونوں ملکوں کے بیچ حالات کو کافی حد تک کشیدہ کر دیا ہے اور امید کی جا رہی تھی کہ ایران دوبارہ جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کرے گا لیکن تادم تحریر اس قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہوئی بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے امن کے قیام کے لیے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

دو برادر اسلامی مملک کے درمیان اس قسم کی غیر ضروری کاروائی یقینا انتہائی قابل افسوس ہے کیونکہ اس قسم کے واقعات سے پاکستان اور ایران کی دشمن طاقتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔

اس وقت پاکستان اور ایران مختلف وجوہات کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی مسائل کا شکار ہیں لہٰذا اگر ان کے بیچ جنگ شروع ہوگئی تو نہ صرف یہ کہ اس سے دونوں ممالک کو نقصان پہنچے گا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی یہ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔1947

میں پاکستان کے قیام کے بعد اسے فوری طور پر تسلیم کرنے والے ممالک میں پاکستان کا قریبی ہمسایہ ایران بھی تھا اور پھر 1965اور 1971کی جنگوں میں بھی ایران نے کھل کر پاکستان کی حمایت اور مدد کی تھی اور دونوں ممالک کے بیچ ہمیشہ سے نہایت خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایران اور پاکستان جب تک ایران میں شہنشاہیت تھی امریکہ کے کیمپ میں تھے اور دونوں کا مفاد اس لحاظ سے مشترق تھا لیکن جب ایران میں 1979میں آنے والے انقلاب کے بعد وہاں شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک کٹر مذہبی حکومت قائم ہوئی تو ایران اور امریکہ کے بیچ تعلقات بہت خراب ہوگئے۔

اسی طرح ایران اور سعودی عرب کے بیچ بھی تعلقات کشیدہ ہونے لگے پاکستان کے لیے یہ ایک کڑا امتحان تھا کیونکہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی چلا آ رہا ہے اسی طرح سعودی عرب اور پاکستان کے بیچ بھی بہت مضبوط اور خوشگوار تعلقات رہے ہیں لہٰذا پاکستان نے ایک طرف تو سعودی عرب،امریکہ اور دوسری طرف اپنے قریبی ہمسائے ایران کے ساتھ تعلقات خوشگور رکھنے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہونی شروع ہو گئی۔

سابقہ سویت یونین نے جب افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس وقت بھی اس کے بارے میں پاکستان اور ایران کا موقف ایک ہی تھا اور دونوں ممالک نے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا لیکن جب روس کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں اور افغانستان میں شدید خانہ جنگی شروع تو پھر وہاں طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا اور افغانستان میں ایک کٹر مذہبی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

جنہوں نے سارے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن ملک کے شمالی علاقوں میں شمالی اتحاد نے طالبان کی حکومت کو چیلنج کیا اور ان علاقوں میں شمالی اتحاد کی ہی حکومت رہی لہٰذا اس عرصے میں ایران نے طالبان کی بجائے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جبکہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو ہی سپورٹ کیا۔

اس کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان اور ایران کے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہونے کی جگہ خراب ہوتے گئے اور پھر جب پاکستان نے بلوچستان میں ایک ہائی پروفائل بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پکڑا تو تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا اسکے پاس ایرانی پاسپورٹ بھی تھا جس پر اسے مسلمان ظاہر کیا گیا تھا۔

اسی طرح مختلف موقعوں پر ایران نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اس کی سرزمین ایران میں شیعہ مخالف دہشت گردی کرنے والے دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔

اسی طرح پاکستان کو اس بات پر تشویش رہی ہے کہ بلوچستان میں جو نام نہاد آذادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ تنظیمیں پاک،ایران بارڈر کے قریبی علاقے سیستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور انہیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی عسکری کاروائی سے گریز کیا ۔

لیکن اس مرتبہ ایران نے پہل کرتے ہوئے بلوچستان کے سرحدی علاقے پرحملہ کیا اور کہا کہ ایران میں جو انتہا پسند تنظیم دہشت گردی کرتی ہے انکے ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا ہے۔یہ حملہ پاکستان کی خود مختاری پر حملہ تھا اس سے قبل جب بھارت نے بالاکوٹ میں یہ کہ کر ہوائی حملہ کیا تھا کہ یہاں دہشت گردوں کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے تو اسکا جواب بھی پاکستان نے فوری طور پر بھر پور طریقے سے دیا تھا۔

جس پر بھاریت کی ساری دنیا میں سبکی ہوئی تھی لہٰذا اب کی بار بھی پاکستان نے ایرانی حملے کا فوری اور موثر جواب دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی عمومی طور پر اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ دو برادر اسلامی ممالک کے بیچ حالات اسقدر کشیدہ ہوں۔

کہ وہ کھلی جنگ کی طرف چلے جائیں اور خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف خوفناک جنگ شروع کر رکھی ہے لہٰذا اگر موجودہ وقت میں خدانخواستہ پاکستان اور ایران کے بیچ جنگ شروع ہوگئی تو دنیا کی توجہ فلسطین پر ہونے والے ظلم کی طرف سے ہٹ جائے گی۔

امریکہ اور مغربی طاقتوں کی تو یہ بھر پور کوشش ہوگی کہ پاکستان اور ایران کو جنگ میں الجھایا جائے تاکہ ان دونوں اسلامی ممالک کو کمزور سے کمزور تر کیا جائے۔

امید ہے کہ ایران بھی اس قسم کی جنگ سے بچنے کی پوری کوشش کرے گا کیونکہ اسے ماضی میں اس قسم کا تجربہ ہو چکا ہے جب اس نے عراق کے ساتھ ایک طویل جنگ لڑی جس میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے اسلحے کے تاجروں نے اربوں ڈالرز کمائے ۔

جبکہ ایران اور عراق کو شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑاتوقع کے مطابق امریکہ اور یورپ نے فوری طور پر ایران کی طرف سے پاکستان پر حملے کی مذمت پرزور الفاظ میں کی ہے تاکہ پاکستان کو ایران کے خلاف بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کر سکے لہٰذا یہ اب پاکستان اور ایران کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو دشمن کی چالوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

مزید خبریں