یونیورسٹیز کیساتھ جہالت میں بھی اضافہ ہورہا،سندھ فیسٹیول میں دانشوروں کا موقف

کراچی(روشن پاکستان نیوز)آرٹس کونسل کراچی میں تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز بھی خوب گہماگہمی رہی،عوامی دانش کی روایت کے موضوع پر تقریب سے ملک کے ناموردانشوروں نے خطاب کیا۔دانشوروں کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ملک میں جہاں جامعات میں اضافہ ہورہا وہاں جہالت بھی بڑھ رہی.
سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے نامورشاعر،ادیب فتخار عارف نے کہا کہ ماضی میں دانشوروں نے لوگوں کی راہنمائی کی جس وجہ سے معاشرہ آگے بڑھا۔ ضروری نہیں کہ کوئی آدمی اچھا مورخ ہو وہ عوامی دانشور بھی ہو، ہر شخص کو اپنی ترجیحات چاہیے ہوتی ہیں ،ہمارے ہاں آج کل جتنی تعلیمی درسگاہوں میں اضافہ ہورہا ہے اتنی جہالت بڑھتی جارہی ہے، ہماری یونیورسٹیوں سے دانشور نہیں نکل رہے۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ ماضی قریب میں بہت سے افراد خود اپنی ذات میں دانش گاہ تھے جہاں نوجوان ان سے سیکھتے تھے وہی ہی عوامی دانش کی روایات تھیں جو نسل در نسل آگئیں بڑھ رہی تھی۔ وہ عوامی دانشور آج ختم یا کم رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ عوامی دانش قربانی مانگتی ہے، سچ بات کہنے اور غلط کو غلط کہنے لئے جرات اور بہادری کی ضرورت ہے۔ اپنی بات عوام تک پہنچانا مشکل ہے کیوں کہ بعض اوقات حاکم وقت کو یہ عمل پسند نہیں ہوتا، ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اپنی بات کس طرح عوام تک پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ علم وہی ہے جس کے پھیلنے سے معاشرے میں شعور بیدار ہو، بدقسمتی سے ہماری درسگاہوں میں وہ لوگ نظر نہیں آرہے جو مزاحمت کا سامنا کرسکیں اور نہ درسگاہوں سے فارغ ہونے والے افراد کے پاس اتنا علم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی کر سکیں۔
نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے دانشوروں نے لوگوں کو زمین کے ساتھ جڑنے کی ترغیب نہیں دی جس کی وجہ سے 75 برس بعد بھی ہمیں یہ نہیں پتا کہ بلوچستان میں کون کون سے علاقے ہیں۔
غازی صلاح الدین نے کہاکہ دانشور وہی ہے جس کی تحریر اور گفتار سے لوگوں میں تبدیلی پیدا ہے،ماضی میں ہمارے معاشرے میں عوامی دانش کی روایت بہت مضبوط تھی۔ ہماری اصل جنگ نفرت کے خلاف ہے دانشور ہی علم کی بنیاد پر نفرت کو ختم کرتا ہے۔
فیسٹیول کے دوسرے روز مختلف سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں ”قوم پر ست سیاست:حال اور مستقبل“، ”روشنی راھوں ،اسٹوری ٹیلنگ ، ”زندگی کی ادھوری کتھا“ ، ”عالمگیریت کی تاریخ اور ارتقائ“ ، ”مشاہد حسین کے مشاہدات ۔ پاکستان :کل آج اور کل “، ”داڑھی والے کے ساتھ سوچتے ہی، ”سندھی ناول :معیار اور مقدار“، ”صوبے اور قومیں“ کے عنوان سے سیشن شامل تھے۔
مذکورہ فیسٹول کو عوامی سطع خصوصاً ادب میں دلچسپی رکھنے والوں میں کافی پزیرائی حاصل ہورہی ہے،موجودہ حالات میں ایسی تقریبات ناگزیر ہیں جن میں نئی نسل کو اخلاقیات کا بھی سبق حاصل ہورہا ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں