اسلام آباد(ظل ہما)صدر پاکستان عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت تحفظ والدین آرڈی ننس 2021ء جاری کردیا جس کے تحت والدین کو گھروں سے نکالنا قابل سزا جرم ہوگا۔
صدر عارف علوی کی جانب سے جاری کردہ اس آرڈیننس کا مقصد بچوں کی جانب سے والدین کو زبردستی گھروں سے نکالنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت والدین کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر پولیس کو بغیر وارنٹ بچوں کی گرفتاری کا اختیار ہوگا، ڈپٹی کمشنر والدین کی جانب سے شکایت پر کارروائی کا مجاز ہوگا۔
اس آرڈیننس کے تحت والدین اور بچوں دونوں کو اپیل کا حق حاصل ہے، بچوں کی جانب سے گھر نہ چھوڑنے کی صورت میں ڈپٹی کمشنر کو کارروائی کا اختیار ہوگا، وقت پر گھر خالی نہ کرنے کی صورت میں 30 دن تک جیل، جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ گھروالدین کی ملکیت ہونے کی صورت میں انہیں بچوں کو گھر سے نکالنے کا اختیار ہوگا، جب کہ گھر اگر بچوں کی ملکیت ہے یا کرائے پر ہے تب بھی اولاد اپنےوالدین کو گھر سے نہیں نکال سکے گی۔
اس آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے یا والدین کو گھر سے نکالنے پر اولاد کو ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی تاہم اگر والدین چاہیں تو بچوں کو گھر سے نکال سکتے ہیں اور ان کی جانب سے تحریری نوٹس دیے جانے پر بچوں کو گھر خالی کرنا لازمی ہوگا۔
قابل زکر امر یہ ہے آج کے موجودہ معاشرے میں اولاد کی نافرمانی بہت پریشان کُن مسئلہ بن گیا ہے،آج کے بچے سدھار کم بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہیں۔یہ بگاڑ الگ الگ وقت میں،الگ طرح سے نقصان کا باعث ہوتا ہے ،بچپن کا بگاڑ ماں باپ معاف کردیتے ہیں، سمجھاتے ہیں یہ سوچ کر کہ ابھی بچپنا ہے،سن بلوغ تک پہنچنے،شادی شدہ ہو جانے کے بعد بھی بگاڑ پر قائم رہنا،ضد کرنا،اپنی ہی بات منوانا، اپنی انا پر قائم رہنا “ماں باپ کے لیے دہکتی آگ سے کم نہیں ہوتا، جس کی گر می وہ برداشت نہیں کر پاتے اپنے بڑھاپے کی وجہ کر ، اللہ کی دی ہوئی محبت ورحمت کی وجہ کر اور اپنی کمزوریوں کی وجہ کر ،وہ دن رات تڑپتے ہیں،اولاد ماں باپ کو دکھ پہنچاکر چین سے سوتی ہیں”۔اور ماں باپ بچوں کی نافر مانی پر کڑھتے ہیں راتیں کر وٹیں بدل کرگزارتے ہیں۔ والدین کی محبت وشفقت حدسے زیادہ بھی بچوں کو خود سر بنا دیتی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں دو کردار ہیں،ایک باپ دوسرا کردار ماں کا ہے،باپ دنیا کے تھپیڑوں سے گزر کر اپنے بڑھاپے میں اپنے بچوں کو اُونچ ،نیچ سمجھا تاہے یہ اس کی قدرتی ذمہ داری،قدرتی محبت کا نتیجہ ہوتی ہے،جسے آج کی اولاد بہت بُرا مانتی ہے اور اپنی آزادی میں خلل سمجھتی ہے،دوسرا کردار بہت اہم ہے ماں سے زیادہ اولاد کو ،کوئی نہیں چاہتا لیکن یہ محبت کبھی زیادہ دکھا کر جتا کر ماں بچے کو خراب کردیتی ہے،باپ کی ڈانٹ پر بچے کا سپورٹ،باپ کو ہی غلطی پر بتانا وغیرہ وغیرہ یہ بچے کے لیے زہر ہوتا ہے،وہ اس سپورٹ کو پاکر جری اور نا فر مان ہو جاتا ہے اور بالآخیر وہ باپ اور ماں کا بھی نافرمان ہوجاتا ہے، ماں باپ کے ساتھ معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے اورخدا کی بارگاہ کا بھی نافرمان ومجرم ہوجاتا ہے اورساتھ ساتھ عذابِ الٰہی کا بھی مستحق بن جاتا ہے،استغفر اللہ استغفرا للہ۔
